سُنو گر حوصلہ رکھتے ہو تم تنقید سننے کا
نری لفّاظی ہی مقصد نہیں ہے شعر کہنے کا
اگر لفظوں میں سچ کو جھوٹ ثابت کر دیا جائے
تو پھر معیار ہے یہ قوم کے اخلاق گرنے کا
مرے الفاظ تب اشعار کی صورت میں ڈھلتے ہیں
تسلّی دل کو دے جب تجربہ سچ کو پرکھنے کا
جو بیٹھے آئینے کے سامنے گھنٹوں لگاتے ہیں
ودیعت ان کو قدرت نے کیا جذبہ سنورنے کا
مگر جس کو خدا نے اپنے ہاتھوں سے سنوارا ہے
نہیں محتاج ہوتا وہ کسی صورت بھی گہنے کا
مجھے سچائی کی خوشبو ہمیشہ اچھی لگتی ہے
اگرچہ پیش کر دے کوئی جھوٹا پھول سونے کا
کہاں تک ہم نے جانا ہے مسافر دو گھڑی کےہیں
نہ جانے وقت کب آ جائے گاڑی سے اترنے کا
تمہیں طارق مگر حق بات یوں ہی کہتے جانا ہے
سنے گا وہ جسے موقع ملے گا کان دھرنے کا

1
52
پسندیدگی کا بہت شکریہ جناب ناصر ابراہیم اور حمیداللہ ماہر صاحبان ! بہت نوازش!

0