حالتِ دل سنبھلنے کو تھی کہ یہ دن گزر گیا
مثلِ بلا ہے پھر شبِ ہجر کا جو اثر گیا
طعنہ زنی تھی شہر میں اور وہاں سے ایک شخص
خوفِ خطر میں یعنی بے خوفِ خطر گزر گیا
نشۂِ حیرت و خیال تھا کہ سرِ شبِ فراق
صدقے کبھی ترے فریب تو کبھی وار پر گیا
الجھے سے ہیں دل و دماغ ملتا نہیں ترا سراغ
خاطرِ گوشۂِ فراغ جبر میں اک سفر گیا
تھا یہ وجودِ ذات پر سایۂِ شہرِ رفتگاں
یعنی نکلتے ہی ترے وصل سے کوئی مر گیا

0
83