جب در پہ آگئے ترے تو جائیں گے کہاں |
آنکھوں کا چین دل کا سکوں پائیں گے کہاں |
آغوش میں ترے ہی تو پائی ہے پرورش |
اب تُجھ سے دور ہم گئے تو جائیں گے کہاں |
ہے ہر طرف جو آ رہی تعریف میں صدا |
ہم اس سے بڑھ کے گیت کوئی گائیں گے کہاں |
گاؤں پہ بھی اثر ہوا ہے انحطاط کا |
واپس جو شہر جا چکے وہ آئیں گے کہاں |
جس کو اُٹھا لیا کبھی تکریم جان کر |
اب اس کے بندے بوجھ یہ اپنائیں گے کہاں |
تیری عبادتوں میں سفر کائنات کا |
ہم بھی ہوئے ہیں سجدہ کناں جائیں گے کہاں |
جسموں کے زخم دیکھ لے دنیا تو کیا کرے |
روحیں جو چُور چُور ہیں دفنائیں گے کہاں |
طارق یہ سال ِنو ہو مبارک تمہیں بہت |
سالِ گذشتہ کو کبھی دُہرائیں گے کہاں |
معلومات