ابھی تلک ہے رہا کچھ نہ کچھ اثر باقی
نہ میکدہ نہ رہی مے ہے بُوند بھر باقی
یقیں ہے کل یہاں انسان گھر بنائے گا
نقوشِ پا ابھی اس کے ہیں چاند پر باقی
لکھی ہے خط میں اسے دل پہ جو بھی گزری وہ سب
سلام لکھنا اسے رہ گیا مگر باقی
گئے تھے یاد ہے اک روز اس کی محفل میں
ہے ذکر اس کا ابھی تک زبان پر باقی
وہ دور پار سمندر سے جا بسے سارے
تو کیوں ہیں منصفوں کی کرسیاں اِدھر باقی
تمام عمر گزاری جواب دینے میں
حساب اپنا ہے طارق ابھی دگر باقی

0
11