نور و ظلمت کی یہ تفریق مٹا دی جائے
جو نہ ڈوبے اسی سورج کو صدا دی جائے
کس کی خاطر لبِ سوزاں سے صدا دی جائے
کس لئے ہاتھ اٹھیں کس کو دعا دی جائے
آئینہ بن کے سرِ شہرِ فقیہاں آیا
میری تصویر زمانے کو دکھا دی جائے
اک بگولوں کا سرِ شہر اٹھے گا طوفاں
میرے دامن سے اگر گرد اڑا دی جائے
اب بھی پانی کی طلب کی تو سرابوں سے حبیب
اب تو یہ ریت کی دیوار گرادی جائے

0
26