نامِ نبی پہ جو بھی قربان ہو گیا
اس کے لئے بقا کا سامان ہو گیا
ان پر درود رب سے آتے دوام ہیں
شاہد اسی امر کا قرآن ہو گیا
عشقِ نبی کی دولت بھی اس کو ہی ملی
جس کے لئے نبی کا یہ دان ہو گیا
ملی ہے بے نیازی اس کو کریم سے
جو بھی درِ نبی کا مہمان ہو گیا
قرآن نیزے پر بھی آلِ نبی سے سن
عترت کی شان کا یہ اعلان ہو گیا
جس پر نظر سخی کی آئی ہے خیر سے
وہ عام سا نفر تھا انسان ہو گیا
دونوں جہاں میں اس کی باندی ہے آبرو
گویا کے تھا وہ بردہ سلطان ہو گیا
محمود نوری آتے ہیں بابِِ جان پر
جبریل دیکھو ان کا دربان ہو گیا

41