| تجھے حمد ہے.... |
| از : محمد حسین مشاہد رضوی |
| مری ابتدا مری انتہا ترے فضل سے تجھے حمد ہے |
| یہ مرا بیان و مری زباں ترے فضل سے تجھے حمد ہے |
| یہ شفق میں جو ہے حنائی رنگ،یہ جو مہر میں ہے طلائی رنگ |
| یہ قمر کا نور بھی یا خدا ترے فضل سے تجھے حمد ہے |
| یہ ستارے تارے یہ کہکشاں،یہ زماں زمین یہ آسماں |
| یہ مکیٖں مکاں ہوئے ضوفشاں ترے فضل سے تجھے حمد ہے |
| یہ سمن و سوسن و یاسمن ، یہ بنفشہ ، سنبل و نسترن |
| ہوئے مُشک بُو جو یہ برملا ترے فضل سے تجھے حمد ہے |
| یہ فاختائیں ، یہ قُمریاں ، یہ بُلبلیں ، یہ طُوطیاں |
| چڑیاں و مینا نغمہ خواں ترے فضل سے تجھے حمد ہے |
| دریا ، سمندر ، آبشار ، صحرا و دشت و کوہ سار |
| سب کو ملی جِلا یہاں ترے فضل سے تجھے حمد ہے |
| پربت کی اونچی چوٹیاں ، تری عظمتوں کی نغمہ خواں |
| وادی میں ہے جوئے رواں ترے فضل سے تجھے حمد ہے |
| ترا نام لب پہ ہو صبح و شام ، شہِ انبیا پہ پڑھوں سلام |
| رہے زندگی یوں رواں دواں ترے فضل سے تجھے حمد ہے |
| نہیں مجھ میں اتنی لیاقتیں ، کہ بیاں کروں تری عظمتیں |
| جو مُشاہدؔ ہے ترا نغمہ خواں ، ترے فضل سے تجھے حمد ہے |
معلومات