سُنی تھی بچپن میں اک کہانی، کہ آئے گی ایک دن جوانی
کھِلیں گی کلیاں، چمن سجے گا، حَسین ہو گی وہ رُت سہانی
جلیں گے اُلفت کے دیپ دل میں، رہے گا کوئی قریب دل میں
شَہَد سے شیریں کلام ہو گا، ملے گی راجہ کو ایسی رانی
سُہانے سپنے سجائے ہم نے، خوشی کے نغمے بھی گائے ہم نے
یہ دل مچلتا رہا ہمیشہ، جو رِیت اس کی رہی پرانی
کُھلی جو آنکھیں عجب تھا منظر، کِیا نہ جس کا کبھی تصور
وُہی تھے بچپن کے دن سُہانے، مگر نہ ہم نے تھی قدر جانی
جہاں ہیں خوشیاں وہاں ہیں غم بھی، ہے مُسکراہٹ تو آنکھ نم بھی
گلاب رکھتا ہے ساتھ کانٹے، یہی حقیقت کی ترجمانی
کِھلائے صحرا میں پھول جو بھی، بھرے کا خوشیوں سے وہ ہی جھولی
رِضا میں رب کی رہے جو راضی، ہے مردِ مومن کی یہ نشانی
وُہی ہے زیرکؔ جو اِس جہاں میں، کرے تیاری تو اُس جہاں کی
جہاں ہمیشہ کی زندگی ہے، نہیں وہاں ہم کو موت آنی

0
5