اُس سے آنکھیں مِلاؤں تو کیسے
بات آگے بڑھاؤں تو کیسے
اُسے سو سو طرح کے شکوے ہیں
اُسے اپنا بناؤں تو کیسے
جانِ جاں! میں کسی کو تیرے سِوا
اپنے دل میں بساؤں تو کیسے
کرتا ہوں ذکرِ حسنِ حورِ بہشت
تیری باتیں سناؤں تو کیسے
تیرے دیدار بِن، گلی سے تری
اپنے گھر لوٹ جاؤں تو کیسے
فاصلہ درمیاں ہے میلوں کا
تجھے سینے لگاؤں تو کیسے
کس قدر دل میں ہے تری چاہت
لفظ کم ہیں، بتاؤں تو کیسے
میں یہاں اور تُو ہے سرحد پار
تجھے ملنے میں آؤں تو کیسے
لاکھ تالوں میں ہے چھپا کے رکھا
دل تمھارا چُراؤں تو کیسے
روتا رہتا ہوں اُٹھ کے راتوں میں
ہجر میں چین پاؤں تو کیسے
تابِ دیدارِ چہرۂ خوباں
دل، جگر آزماؤں تو کیسے
دُوریاں جب لکھی ہیں قسمت میں
تجھے نزدیک لاؤں تو کیسے
ہو کے مسرور غم سے، رقص کروں
جشنِ ہجراں مناؤں تو کیسے
باغ سے اُس کے توڑ لاؤں اُسے
پھول پر ظلم ڈھاؤں تو کیسے
آپ اُٹھے تو اُٹھے تغافل کیش
میں پکڑ کر ہلاؤں تو کیسے
جو بھی ہے درد میرے دل میں ہے
ڈھول غم کا بجاؤں تو کیسے
وصل کی رات حلق ہے سب خشک
اُسے چُھو کر بلاؤں تو کیسے
جلوۂ یار نے اُڑا دیے ہوش
رُخ سے نظریں ہٹاؤں تو کیسے
دل نہیں، اک بجھا ہوا ہے چراغ
آشیانہ جلاؤں تو کیسے
آئینہ میرے گھر کا ٹوٹ گیا
بال اپنے بناؤں تو کیسے
اُس کا والد عزیز ہے میرا
اُسے گھر سے بھگاؤں تو کیسے
اُس نے دیکھا ہے آنکھ بھر کے مجھے
آنکھ اُس سے لڑاؤں تو کیسے
اُس نے جب دے رکھا ہے پاؤں تلے
دل کا شیشہ بچاؤں تو کیسے
سمجھ آتا نہیں کہ آمد پر
اُس کی، گھر کو سجاؤں تو کیسے
کیسے کیسے ستایا ہے اُس نے
وصل میں مَیں ستاؤں تو کیسے
سفری ہوں میں اُس کی منزل کا
اپنا ساماں لُٹاؤں تو کیسے
کیسی برسات میری اُس کے بغیر
بارشوں میں نہاؤں تو کیسے
اپنی شاگردہ پر ہوں دل ہارا
عشق مضموں پڑھاؤں تو کیسے
خون ٹپکا رہے ہیں آگے ہی
ہونٹ اُس کے چباؤں تو کیسے
سر کٹاتا ہوں عشق میں اُس کے
قرض ورنہ چُکاؤں تو کیسے
میرے پاس اُس کی جیسی زلف نہیں
سانپ کہہ کر ڈراؤں تو کیسے
کیا گزرتی ہے دل پہ ہجر کی رات
دوستوں کو بتاؤں تو کیسے
بزم میں قصۂ غمِ تنہائی
مسکرا کر سناؤں تو کیسے
مے کدے جا شراب پیتا ہوں
آتشِ دل بجھاؤں تو کیسے
ہو نہ فرعون کا محل آگے
خط تمھارے بہاؤں تو کیسے
تیشۂ دل بڑا جفا کش ہے
کوہکن کو تھکاؤں تو کیسے
غیر اُٹھے کیونکر اُس کے پہلو سے
مَیں جو نقشہ جماؤں تو کیسے
کشتئ نوحؑ لاؤ، کاغذی ناؤ
سیلِ غم میں چلاؤں تو کیسے
خوابِ خرگوش میں ہے دل، لیکن
سوچتا ہوں جگاؤں تو کیسے
قد ہے محراب سا ضعیفی میں
اب بھلا سر جھکاؤں تو کیسے
اُسے دیکھا ہے بعد مدت کے
جذبۂ دل دباؤں تو کیسے
سخت جاں ہے وہ گاؤں کی لڑکی
نازکی سے لُبھاؤں تو کیسے
عشق دو بار تو نہیں ہوتا
دل دوبارہ لگاؤں تو کیسے
شہر سُنسان ہے، گلی خاموش
میں جو اودھم مچاؤں تو کیسے
خوب بچپن تھا، کوئی فکر نہ تھی
کھاؤں کیسے، کماؤں تو کیسے
خاک آلودہ ہے سفید لباس
داغِ داماں چھپاؤں تو کیسے
بھول ہی جو گئے ہو سب وعدے
یاد میں اب دِلاؤں تو کیسے
آپ ہیں کم سِن اور ہم پُختہ
فرقِ یک دس مٹاؤں تو کیسے
اپنی نظروں میں گِرنے لگتا ہوں
تیرا پردہ اُٹھاؤں تو کیسے
آنسوؤں میں گزار دی تنہاؔ
زندگی، مسکراؤں تو کیسے

0
71