تم نے یہ دین کہاں سے یہ دھرم سیکھا ہے
نفرتیں دل میں بڑھانے کا کرم سیکھا ہے
جاں بہ لب لوگ بھی مایوس نہیں اس سے ہوئے
اس مسیحا نے مرے موت کا دم سیکھا ہے
ہم نے ہر دور میں دیکھا ہے محبّت کا اثر
آگے بڑھتا ہے جو نیکی کا قدم سیکھا ہے
اس کے مجھ پر جو تسلسل سے ہیں احسان رہے
نگہِ لطف پہ سر کرتے ہیں خم سیکھا ہے
ایک مٹی سے بنے جب تو سبھی ایک ہوئے
سارے انساں ہیں عرب ہو کہ عجم سیکھا ہے
اس نے مجھ سے ہی نہیں سب سے محبّت کی ہے
یوں بھی کر دیتے ہیں احسان صنم سیکھا ہے
حق کی آواز کو پہنچائیں جہاں تک پہنچے
حق ادا کر دے وہ اندازِ رقم سیکھا ہے
طارق اب اور تو کھولو نہ دریچے دل کے
رکھ لیا جائے کسی کا جو بھرم سیکھا ہے

0
72