ملک و ملت کی بقا ممکن نہیں اے نوجواں |
جب تلک پیدا نہ ہو تجھ میں اداۓ جانفشاں |
جانفشانی سے ہی باغِ دہر میں فصلِ بہار |
جانفشانی سے ہی گلشن میں ہے شاہیں شادماں |
لذتِ صحرا نوردی قیس سے پوچھے کوئی |
پھرتا ہے کیوں مضطرب پروانوں سا بیتاب جاں |
محوِ حیرت ہوں کہ آخر تھے ہم ہی میں سے کبھی |
کیسے کیسے عزم والے ڈھا گئے جو آسماں |
رفعتِ پرواز میں چشمِ براہِ انتظار |
ہے ثریا بھی پریشاں مضطرب ہے کہکشاں |
قوم ہی محبوب ہو کہ فکر کر یوں قوم کی |
جیسے لیلی کے لئے مجنوں نے چھوڑے کارواں |
کب سے تیری راہ پر پلکیں بچھائے ہے جبیں |
آۓ گا کب کارواں میں ہاۓ ، میرِ کارواں |
میں کروں بیدار پھر سے جذبہ و عزم و جنوں |
اور تو پیدا کرے خود میں صفاتِ مردماں |
اپنے اپنے شوخ دل میں بے خطر پر شوق میں |
قوم کی الفت میں پیدا کر جنوںِ عاشقاں |
طرزِ ماضی پر ہو تیری راہ پھر سے استوار |
ہے اسی طرزِ کہن میں ہاں، حیاتِ جاوداں |
تیرے دریائے دلِ بےتاب میں پوشیدہ ہے |
اک صفت سیلِ رواں بے ضبط بحرِ بے کراں |
تیرے ہی دم سے ہیں عالم تاب یہ شمس و قمر |
تیرے ہی دم سے فلک پر ہیں ستارے ضو فشاں |
. |
قوتِ فکر و عمل سے توڑ دے چنگ و رباب |
ہے جوانانِ مسلماں کا یہی دورِ شباب |
ملک و ملت کے لئے کچھ کام بھی انجام دے |
حیف ایسی زندگی پر جس میں نہ ہو انقلاب |
دیکھ اپنی ہستیٔ مانندۂ کوہسار کو |
عزمِ شاہیں ہے جگر میں اور نگاہوں میں عقاب |
تجھ سے روشن روز و شب ہیں تجھ سے روشن کائنات |
تو زمانے کے لئے ہے ماہتاب و آفتاب |
روز و شب کیا ہو رہا ہے ان سے بھی رہ باخبر |
غفلت و نا آگہی کا اب ہٹا دے یہ حجاب |
گر عمل پیرا ہوۓ ملت کے کچھ ہی نو جواں |
ظلم کے چھٹنے لگیں گے رفتہ رفتہ یہ سحاب |
ملک و ملت کو بچانے راہِ شیخ الہنؒد پہ چل |
ریشمی تحریک بھی تجھ کو ہے غافل دستیاب |
عالمِ اسلام کا بارِ گراں ہے دوش پر |
تیرے فرزندانِ سندھؒی اے امامِ انقلاب |
تو ہی ناداں بھول بیٹھا ہے روایاتِ کلیم |
طور دکھلانے کو مضطر پھر سے ہے وہ آب و تاب |
قوم و ملت کی حیاتِ جاودانی تجھ سے ہے |
کردے دل کے آئینے کے سارے جوہر بے نقاب |
اٹھ کہ اے ملاح ! تیری کشتیاں غرقاب ہیں |
زندگی تیری بھنور میں کھا رہی ہے پیچ و تاب |
کہہ رہا ہے مجھ سے میرا جان لیوا اضطراب |
آۓ گا پھر سے جہاں میں اب کہ کوئی انقلاب |
. |
ہے تری آنکھوں سے پنہا کیوں نظامِ کائنات |
اے مسلماں تجھ کو حاصل کیوں نہیں چشمِ حیات |
جذبۂ سیلِ رواں بھی تجھ میں اب باقی نہیں |
ترے بحرِ بے کراں کا خشک ہے نیل و فرات |
تو اگر دانا ہے اے دل ! لے سبق ان قوم سے |
درسِ عبرت دے رہے ہیں ظلم کے جو واقعات |
کس طرح اغیار کے ہاتھوں ہوۓ ہیں یہ تباہ |
رے و نیشاپور و غزنی خوارزم شاہی ہرات |
اک ذرا سی چوٹ پر کیوں دل پریشاں حال ہے |
کون ہے جس پر نہ آئے دنیا بھر کے مشکلات |
دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف ہو گامزن |
تری راہوں پر مسافر منتظر ہیں حادثات |
سن اے راہی ! کاروانِ عشق کو سنبھالا دے |
شاہراہِ موت ہے یہ لرزے نہ پاۓ ثبات |
مقصدِ ہستی تری بھی اے کہ عالم گیر ہے |
ڈھونڈ غافل خود میں تو بھی حکمرانوں کے صفات |
دہر کے بت خانے میں مومن ہوۓ جو سادہ لوح |
سازشی ذھینیتوں نے پھر تراشے سومنات |
اٹھ یدِ بیضا لیے پھر اے کلیمِ طور تو |
سامری جادو گری کے توڑ دے لات و منات |
آپ ہی کرنا ہے ملت کا تحفظ بالیقیں |
اے جوانو! یاد رکھو اب نہ ہوں گے معجزات |
منزلِ ما فات کی ہو جستجو میں سحر و شام |
گردشِ ایام سے تو ڈھونڈ لا راہِ نجات |
. |
چھوڑ دے تنقید ناداں ہو خرد میداں میں آ |
گر ہو یوسف ہم نشیں تو حلقۂ زنداں میں آ |
ترک کر تقلید کی بے جا روش کو اے جنوں |
چھوڑ کر صحرا نوردی محملِ لیلی میں آ |
کشمکش ہے زندگی جو ساحل و دریا کی بیچ |
چھوڑ دے موجوں کی سنگت پیکرِ طوفاں میں آ |
کائناتِ رنگ و بو کی تنگ ، وسعت سے نکل |
ہے طلب انسانیت سے چشمۂ حیواں میں آ |
بے تجلی طورِ سینا ہو گیا ہے آج پھر |
اے کلیمِ طور تو پھر وادیِ سینا میں آ |
ہو اگر حقانیت اسلام کی مطلوب پھر |
لے کے پیغامِ شریعت وادیِ فاراں میں آ |
دین کی ہی سربلندی گر ہے مقصودِ حیات |
چھوڑ کر ہند و عرب کو سرحدِ افغاں میں آ |
ہے زمیں تجھ کو میسر سلطنت کی بیج بھی |
شام و ایراں سے نکل کر ترک کے دہقاں میں آ |
کیا نہیں ممکن جہاں میں ہو اگر سچی طلب |
کائناتِ ممکنات و عالمِ امکاں میں آ |
خاک روبی سے نکل کر تو فلک پیمائی کر |
چھوڑ دے بزمِ غلاماں محفلِ شاہاں میں آ |
پھر سے دکھلا دے زمانے کو وہی نظارہ تو |
برہمن زادوں پہ چڑھ جا طغرل و عثماں میں آ |
عالمِ اقوام پر قبضہ اسی سے ہے جواں |
بسکہ ہے دورِ سیاست دہر کے ایواں میں آ |
. |
دیکھ ناداں کیا ہے اب ملک و وطن کی داستاں |
ہے مسلماں کے لہو میں غرق سارا گلستاں |
فکر کر غافل وطن کی ، قوم کی تعمیر کر |
ہے تباہی کے دہانے پر ترا ہندوستاں |
دیکھ اپنے روز و شب کو قوم کی بیچارگی کو |
سر پہ تیرے آنے والی ہے مصیبت ناگہاں |
حال و استقبال کا بھی جائزہ لے بے خبر |
ہو رہا ہے رفتہ رفتہ تنگ تجھ پر آسماں |
ظلم کے آگے خموشی کی فضا چھائی ہے اب |
بے زباں تو بے زباں اہلِ زباں ہیں بے زباں |
چیل و کرگس کے شرر سے ہے جو شاہیں بے خبر |
ہر نشیمن چاک ہے باقی بچا نہ آشیاں |
پاس آۓ کوئی گر میرے تو اس کو دکھلاؤں |
اجڑے اجڑے گلستاں بکھرے ہوئے یہ آستاں |
حق و باطل کی لڑائی آخرش ہونی ہی ہے |
ہے یہی بہتر کہ چوکس ہوجا قبل از امتحاں |
کیسے منزل تک پہنچ پاۓ گا اے اختر نشیں |
راہِ رو ماضی سے خالی ہے ترا اب کارواں |
وہ عمؓر صدیقؓ و عثؓماں حیؓدر و خاؓلد کا نقش |
ڈھونڈتی ہے آج دنیا ، ہیں کہاں وہ حکمراں |
ناز کرتا تھا جہاں جن کے غبارِ راہ پر |
کھا گئی ہے ان کو کیا یہ گردشِ ارض و سماں |
ہے یہی تقدیرِ ملت ہوں گے حاوی ، ناتواں |
جب تلک بیدار نہ ہوں قوم کے غافل جواں |
. |
آہ ناداں اپنی تو نادانیوں سے سیکھ لے |
ہر طرف پھیلی ہوئی حیرانیوں سے سیکھ لے |
پوچھتا ہے کیا کلی سے پھول سے غنچوں سے گل |
گلشنِ اسلام کی ویرانیوں سے سیکھ لے |
قوم و ملت کے لئے ہوتے ہیں کیسے جانفشاں |
برہمن زادوں سے ، ہندوستانیوں سے سیکھ لے |
کس قدر ارزاں ہے لیکن دہر میں انساں کا خوں |
ندّیوں میں بہہ رہے ارزانیوں سے سیکھ لے |
کیسے گلشن میں بہاراں آکے رخصت ہو گئی |
دستِ گلچیں ! گل کی دی قربانیوں سے سیکھ لے |
جانثاروں کا جگر ہو سرفروشوں کی ادا |
ترک کے صحرا میں جا عثمانیوں سے سیکھ لے |
دہر میں قائم ہو کیسے پھر نظامِ " لا ا لہ " |
یہ روایاتِ کہن افغانیوں سے سیکھ لے |
آتشِ نمرود پھر سے ہے دہکنے کے لئے |
اے براہیمی ! شرر افشانیوں سے سیکھ لے |
ہاں ! بنا دیتی ہے بزدل عقل کو خوۓ غلام |
ان اسیروں کی اِنہیں درمانیوں سے سیکھ لے |
کیسے ملت کی حفاظت کے لئے کوشاں رہے |
یہ پیامِ جانفشاں تورانیوں سے سیکھ لے |
کیسے نافذ ہو جہاں میں آئینِ دینِ مبیں |
ہند کے آئین داں ! عثمانیوں سے سیکھ لے |
کیسے رہتے ہیں جہاں میں با وجاہت باوقار |
اے فقیرِ رہ نشیں ! سلطانیوں سے سیکھ لے |
. |
معلومات