پردے میں رہ کے بھی عیاں حسن و جمال کر دیا
ہر شے بنا کے آئنہ اس نے کمال کر دیا
میں تو گیا تھا مانگنے دید کی اک جھلک مگر
وعدۂ وصل سے مجھے اس نے نہال کر دیا
اس کے بغیر زندگی گزری جو بے مزہ تھی وہ
پایا اسے تو بھولنا دل نے محال کر دیا
لذّتِ قُرب دائمی پانا ہے مقصدِ حیات
اُس نے تو میری چاہتوں کو لا زوال کر دیا
اُس کو بتاؤں کیا بھلا اُس کو تو خود ہے سب پتہ
دنیا نے اُس کے دین کا کیا بُرا حال کر دیا
اس میں سے کچھ جو دے دیا اس نے کیا تھا جو عطا
اس نے کئی گُنا مرا مال و منال کر دیا
طارق ادب سے تُو ذرا اس کی گلی میں رکھ قدم
اس نے ثبوت پیار کا تُجھ کو سنبھال کر دیا

0
66