لوٹ کر وقت نہ آیا تو مجھے یاد آیا
ہو گیا اپنا ، پرایا ، تو مجھے یاد آیا
بھول جانا اُسے آساں تو نہیں تھا لیکن
اس نے جب یاد دلایا تو مجھے یاد آیا
ابتدا کیسے ہوئی عشق میں کچھ یاد نہیں
پھر سبق اس نے پڑھایا تو مجھے یاد آیا
زخم تو اس نے دیے ہوں گے یہ امکان بھی ہے
قصّۂ درد سنایا تو مجھے یاد آیا
باغ میں شور تو بلبل نے مچایا لیکن
گیت گلشن میں جو گایا تو مجھے یاد آیا
اس نے سمجھا تھا مجھے ، میں نے اسے اپنا لباس
پیرہن اس کو بنایا تو مجھے یاد آیا
یہ ہنر اُس نے بہت پیار سے سیکھا ہو گا
اس کے گھر جا کے جو کھایا تو مجھے یاد آیا
اپنے گھر اُس کو محبّت تو ملی ہو گی بہت
ذکر جب اِس کا نہ آیا ، تو مجھے یاد آیا
یاد آتی ہے تو آنسو بھی نکل آتے ہیں
خون آنکھوں سے بہایا تو مجھے یاد آیا
طارقؔ آزادئ اظہار ملی ہے اب تو
جب کلام اپنا سنایا تو مجھے یاد آیا

0
7