زخم دل کے سبھی چھپائے گئے
آنسوؤں سے دیے جلائے گئے
پوری کوشش ہمیں رلانے کی
اور ہم تھے کہ مسکرائے گئے
کیا بتائیں کہ کب ملی منزل
ہم تو ہر گام آزمائے گئے
تھا مقدر کہ اب بچھڑنا ہے
اس قدر اشک کیوں بہائے گئے
خواب دیکھا کہ آ رہے ہیں وہ
دل کے سب راستے سجائے گئے
سوچتے ہیں کہ زندگی تجھ سے
کس طرح عمر بھر نبھائے گئے
اک ذرا سے خلوص کی خاطر
کیسے کیسے فریب کھائے گئے
یاد کچھ خاص اب نہیں ہم کو
پر نہ وعدے تِرے بھلائے گئے

90