مدت سے یہ اک لاش یہاں زندہ گڑی ہے
بس یہ ہی وجہ ہے کہ شکایت بھی بڑی ہے
اندر مرے اترا ہی نہیں آج تلک تک
تنہائی کہیں روح کی غاروں میں پڑی ہے
احساسِ فراواں کا یہ سیلاب تو دیکھو
یہ خون کے آنسو ہیں کہ ساون کی جھڑی ہے
اک غم کا اندھیرا ہے جو نس نس میں رواں ہے
اک دکھ بھری تصویر نگاہوں میں جڑی ہے
اس شہرِ دل آزار سے جا بھی نہیں سکتا
رستے میں یہ یادوں کی جو دیوار کھڑی ہے

0
47