زندگی دوڑتی جائے بڑی رفتار کے ساتھ
ہم فقط دیکھیں اسے بیٹھ کے دیوار کے ساتھ
ہاتھ میں لے کے قلم ہم نے تو پیغام دیا
کس نے پھیلایا ہے اسلام کو تلوار کے ساتھ
ماہِ کنعاں کو جو دیکھا تو چلے آئے سب
چل دیا چپکے سے لیکن وہ خریدار کے ساتھ
وصل کی آس میں جاری رہیں سانسیں ورنہ
کس نے جینا تھا ترے ہجر کے آزار کے ساتھ
خوف ہے دل میں وہ بخشے گا یہ امّید بھی ہے
دیکھیں کیا کرتا ہے وہ مجھ سے گنہ گار کے ساتھ
گفتگو اس نے جو کی تھی کبھی محفوظ تو ہے
روز آتا ہے مگر وہ نئے افکار کے ساتھ
تو جہاں گزرے مہک تیری فضا میں آئے
ہے معطر تِرا گھر بھی ترے کردار کے ساتھ
صاف سیدھی ہو اگر بات وہی دل کو لگے
ورنہ ہوتا نہ اثر یوں ترے اشعار کے ساتھ

1
41
پسندیدگی کا بہت شکریہ ثمینہ رفیق صاحبہ

0