زندگی دوڑتی جائے بڑی رفتار کے ساتھ |
ہم فقط دیکھیں اسے بیٹھ کے دیوار کے ساتھ |
ہاتھ میں لے کے قلم ہم نے تو پیغام دیا |
کس نے پھیلایا ہے اسلام کو تلوار کے ساتھ |
ماہِ کنعاں کو جو دیکھا تو چلے آئے سب |
چل دیا چپکے سے لیکن وہ خریدار کے ساتھ |
وصل کی آس میں جاری رہیں سانسیں ورنہ |
کس نے جینا تھا ترے ہجر کے آزار کے ساتھ |
خوف ہے دل میں وہ بخشے گا یہ امّید بھی ہے |
دیکھیں کیا کرتا ہے وہ مجھ سے گنہ گار کے ساتھ |
گفتگو اس نے جو کی تھی کبھی محفوظ تو ہے |
روز آتا ہے مگر وہ نئے افکار کے ساتھ |
تو جہاں گزرے مہک تیری فضا میں آئے |
ہے معطر تِرا گھر بھی ترے کردار کے ساتھ |
صاف سیدھی ہو اگر بات وہی دل کو لگے |
ورنہ ہوتا نہ اثر یوں ترے اشعار کے ساتھ |
معلومات