غزل
اس سے کیا ہم کو واسطہ کوئی
گھر میں جو کچھ بھی کہہ گیا کوئی
اس کو اک بار دیکھنا چاہوں
جانے کیوں یہ کرے دُعا کوئی
اپنے سپنے بھی اس کے نام کئے
اب کہاں تک کرے وفا کوئی
جانتے ہی نہیں خدا کو جو
ہو گا ان کا بھی تو خدا کوئی
پھینک دو وہ بھی میری جانب ہی
تیرِ ترکش میں کیا بچا کوئی
دیکھ کر توڑنے کو جی چاہے
گل نے پہنی ہے کیا قبا کوئی
ہر کوئی منہ چھپائے پھرتا ہے
آئی مہلک ہے کیا وبا کوئی
کیا صبا آئی گھر سے یوسف کے
لائی خوشبو ہے ، آشنا کوئی
سانپ پھینکے ہیں ساحروں نے پھر
لائے موسٰی کا پھر عصا کوئی
زندگی جاوداں ملی اس کو
جو خدا میں ہوا فنا کوئی
مائیں بہنیں ہوئیں برہنہ سر
کیوں نہ اوڑھے یہاں ردا کوئی
ابتلا یاں ہے ، امتحان وہاں
یہ بھی عقدہ کرے کُشا کوئی
بوجھ کیوں لے چلے ہیں کاندھے پر
زندگی کی نہیں بقا کوئی
کِیا لہو سے رنگا ہے ہاتھوں کو
یہ تو لگتی نہیں حنا کوئی
ہم نے سب تیرے خواب دیکھے ہیں
خواب تجھ کو بھی کیا ملا کوئی
مجھ کو دنیا سے کیا غرض ہو گی
مجھ کو حاصل ہے جب رضا کوئی
وصل کی آرزو کریں بھی کیا
جب کہ ہم تم ہیں کیا جُدا کوئی
آسماں اور راگ گاتا ہے
ایسا نغمہ نہیں سُنا کوئی
حق کی آواز پھر اٹھائی گئی
اور دبانے پہ ہے تُلا کوئی
تیری آواز میں اثر تو ہے
آ گیا جو ، یہیں رُکا کوئی
بُولہب کی صفات رکھتا ہے
اپنی ہی آگ میں جلا کوئی
جس کو روشن کیا خدا نے خود
وہ بھی کیا دیپ ہے بجھا کوئی
گونجتی ہے جو ہر گھڑی ہر پل
اور دنیا میں ہے صدا کوئی ؟
کیا خزاں کر سکی شجر سے الگ
ہے ہرا ساتھ جو جُڑا کوئی
ہے جو بیمار ، عصرِ حاضر کو
اے معالج بتا دوا کوئی
نفل پڑھتے ہیں فرض کو چھوڑیں
پوچھتے ہیں ، کہ ہے قضا کوئی
ہم نے ہتھیار خود ہی ڈالے ہیں
ہو گی اس کی بھی تو سزا کوئی
اس کو سجدہ کیا ہے جب طارِقؔ
بندگی کی ہے انتہا کوئی

0
9