| تڑپا رہی ہے جسکو بھی فرقت حضور کی |
| بے شک دل میں اسکے ہی الفت حضور کی |
| ۔ |
| سمجھے گا کیسے کوئی بھی شوکت حضور کی |
| فھم و ذکا سے دور ہے رفعت حضور کی |
| ۔ |
| پردے میں "میم" کے ہے "احد " کاظہور بھی |
| الفت ہے حق کی اصل میں الفت حضور کی |
| ۔ |
| منسوب ہے جو بیشک سبھی عالمیں سے |
| توحید کا شعور ہے رحمت حضور کی |
| ۔ |
| کنجی ہر اک خزانہِ حق کی ہے انکے پاس |
| اور اس پہ بانٹنے کی ہے خصلت حضور |
| ۔ |
| ائے دل تو بن کے کاسہ حضورِ نبی آ |
| خالی نہیں ہے بھیجنا عادت حضور کی |
| ۔ |
| محشر کی سختیوں کی ہو نیکوں کو کیوں فکر |
| ہم بد ہیں ہم تو چاہیں شفاعت حضور کی |
| ۔ |
| باب الدعا کا واسطہ طیبہ نصیب ہو |
| درکار ہے مجھے بھی اجازت حضور کی |
| ۔ |
| تخلیق اولیں ہے، تو اظہار آخری |
| خاتم ہے اس طرح سے نبوت حضور کی |
| ۔ |
| اسلام کی اساس کا اس پر ہے انحصار |
| قائم رہے جہان میں عفت حضور کی |
| ۔ |
| آنکھیں میں پاک رکھتا ہوں ہر آن اس لیے |
| ہوجائے کب نصیب زیارت حضور کی |
| ۔ |
| لب پر درود رکھنا ہے بیشک بڑا شرف |
| رب کی عطا ہے خاص ،عنایت حضور کی |
| ۔ |
| دل میں خیال غیر ہو ممکن نہیں ہے یہ |
| عادت میں جسکے رہتی ہو سنت حضور کی |
| ۔ |
| گھر سے چلوں میں جب تو یوں دیتی ہے ماں دعا |
| اللہَ کی امان و حفاظت حضور کی |
| ۔ |
| ان پر سلام بھیجو ، وہ دیتے ہیں خود جواب |
| نظروں میں لے رکھے گی بصارت حضور کی |
| ۔ |
| گزرے تھے جس مقام سے سردارِ انبیاء |
| اب تک فضا میں ہے وہاں نکہت حضور کی |
| ۔ |
| اصحابِ مصطفے ہیں اسی کے لیےنجم |
| کشتیِ دین سمجھے جو عترت حضور کی |
| ۔ |
| مزمل ہے فیض سب یہ شاھِ کمال کا |
| ہم پر جو وا ہوئی ہے مدحت حضور کی |
| صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم |
معلومات