ذاتِ باری سے خلق کو شاہِ سلطاں مِل گیا
فخر موجودات سے ہستی کو ساماں مِل گیا
بے سکوں سی زندگی یہ ہجر میں محصور تھی
دِل جلوں کے کارواں کو خوب استھاں مِل گیا
خلق کو یہ زندگی، کونین کو رونق مِلی
داریں کی اِس بزم کو جانانِ جاناں مِل گیا
اِس نمودِ خاک کی، بہبود کی خاطر سنیں
اِک حکیمِ جان و دل سے، خاص درماں مِل گیا
ظُلمتِ طاغوت سے مخلوق تھی بھٹکی ہوئی
حق خدا سے نورِ ایماں، اور ایقاں مِل گیا
شکر اللہ ہم نے پایا، نِعمتِ رَبّ کو تمام
خلقِ خالق کو خدا سے، شاہِ شاہاں مِل گیا
منزلِ مقصود سے، محمود! تھے سب بے خبر
کارواں کو ہر جہاں میں، نورِ یزداں مِل گیا

40