پہلو میں غیر کو جو لیے بیٹھے ہیں
پوچھئے ہم سے کیسے جئے بیٹھے ہیں
ہے سوا موت انجام کچھ بھی نہیں
کام کچھ ہم بھی ایسے کئے بیٹھے ہیں
اللّٰہ کیوں ہے سجایا یہ محشر تو نے
جب سزا کو جہاں میں لیے بیٹھے ہیں
کس لیے آپ لائے کفن کو حضور
لاش تو کب کی ہم دفنئے بیٹھے ہیں
اب خدارا نہ پھر تو اٹھا یہ نقاب
زخم مشکل سے پہلے سہے بیٹھے ہیں
شوق سے کون چلتا عدم کی طرف
زہر مجبور ہو کے پئے بیٹھے ہیں
سامنا میرا ہو ہی کبھی جائے گا
اک اسی آس پر ہم جئے بیٹھے ہیں
اب کسی بھی وبا کا مجھے ڈر نہیں
غم کلیجے میں ایسا لئے بیٹھے ہیں
تھی عمر بھر کی پونجی مرے پاس دل
وہ بھی ہم ہاتھ تیرے دیئے بیٹھے ہیں
ہم سے بچنے کی وابستہ رکھ نا امید
زہر اپنے جو ہاتھوں پئے بیٹھے ہیں
پوچھے ہم سے نہ کوئی مجھے کرنا کیا
دل سے وعدے عجب سے کئے بیٹھے ہیں

0
204