مصرعہ طرح: علی کا نام مصیبت کو ٹال دیتا ہے
ہمیں غموں کے بھنور سے نکال دیتا ہے
علی کا نام مصیبت کو ٹال دیتا ہے
گلوں کو رنگ کرن مہر کو شجر کو ثمر
جو جس کو دیتا ہے بس لازوال دیتا ہے
جہاں میں آنے سے پہلے ہی بطنِ مادر میں
ہر اک بشر کو وہی خدّ و خال دیتا ہے
وہ جس کو چاہے عطا کرنا دولتِ ایماں
تو اس کے دل میں ولا اپنی ڈال دیتا ہے
ہمیں بھی دے دو شرف اپنی مدح کا مولا
سنا ہے نبیوں کو عمراں کا لال دیتا ہے
دعا جو مانگتے ہیں اس سے شعر گوئی کی
جدا ہو سب سے وہ ایسا خیال دیتا ہے
اسی خیال کو شعروں میں ڈھالنے کے لئے
وہ لفظ لفظ ہمیں بے مثال دیتا ہے
سوا علیؑ کے نہیں دوسرا زمانے میں
جواب سب کو جو قبلِ سوال دیتا ہے
جو حق امام کا ہے ان کے غیر کو دے کر
وہ مالِ خمس نہیں صرف مال دیتا ہے
علی کے لال جگر بندِ سیدہؐ عباسؑ
زمانہ تیری وفا کی مثال دیتا ہے
یہی مسیح نے مردے کو زندہ کرکے کہا
علی کا نام ہمیں یہ کمال دیتا ہے
سلام اس کی نبیؐ ساز پرورش کو سلام
رسول ہوتا ہے وہ جس کو پال دیتا ہے
کسی کے سامنے کیوں ہاتھ اپنے پھیلائیں
خدا کا شکر وہ رزِقِ حلال دیتا ہے
خدا سے مانگو تو دیتا ہے پر مرا مولا
بغیر مانگے ہی جھولی میں ڈال دیتا ہے
ہم اپنی بزم میں کیوں تذکرہ کریں اس کا
رسولؑ بزم سے جس کو نکال دیتا ہے
علی کے ذکر سے کھلتا ہے راز شجروں کا
علی کا ذکر تو شجرے کھنگال دیتا ہے
ثنا کے ساتھ مطائن کے بھی جو شعر کہے
وہ اپنے شعروں کا صدقہ نکال دیتا ہے
ظہیرؔ اس کے کرم سے ہی سرخ رو ہو جو
خیال لفظوں کے موتی میں ڈھال دیتا ہے

114