| فکر کے جلتے پروں پر تنبیہ دعائیں میری، |
| تکتی ہیں اس کی راہ کو اب بھی نگاہیں میری۔ |
| ٹھہری ہے گونجِ گریہءِ گردِ سفر گھر میں بھی، |
| اس تاریک سرائے میں ہیں سزائیں میری۔ |
| بجلی، درندے، کالی گھٹائیں گونجتی ہیں، |
| یہ آسیب جو رہتے ہیں بن کہ بلائیں میری۔ |
| چشمِ براہ، یہ خالی سرائیں بدبختی ہیں، |
| شہرِ خموشاں میں ہیں عجیب صدائیں میری۔ |
| کوہِ غم ہی تھا کیا میرا انعامِ محبت؟ |
| کیا کسی کو بھی نہ یاد آئیں وہ وفائیں میری؟ |
| مبتلا غمِ عشق میں نیم جاں ہیں ایسے کے، |
| جیسے کسی کی روح پہ جسمی قبائیں میری۔ |
| میری تربت پر کبھی دھوپ نہ آنے پائی، |
| یادوں کے آنگن میں سوتی ہیں رضائیں میری۔ |
| گھر میں بستی ہیں گئے گزرے دنوں کی ندائیں، |
| لگ کر گلے، رو جاتی ہیں یہ انائیں میری۔ |
| نکلا حصارِ ذات سے تو آگے صحرا تھا، |
| یاد آئیں پھر دیواروں کو قضائیں میری۔ |
معلومات