دل کے آئینے پہ جب احساس کی کرنیں پڑیں،
خواب زندہ ہو گئے، جو مٹ چکے تھے دھُند میں۔
سوچ کی وادی میں جب تنہائی بولی حرفِ نو،
آسماں جھکنے لگا، سر ہو گیا سجود میں۔
خود کو پہچان اے مسافر! راہ تجھ میں خود نهفت،
جس کو ڈھونڈا آسمانوں میں، وہ ہے تیری جست میں۔
وقت کے طوفان سے لڑ، تو بن صفیرِ حق کبھی،
نالۂ فطرت ہے تو، گونج بن وجود میں۔
حسنِ کردار ہی وہ جو روشنی بن جائے پھر،
جب عمل کا تارہ چمکے، ظلمتوں کی دود میں۔
میں نے دیکھا خواب اک، ملتِ جاں بیدار ہو،
گرمیِ ایمان سے، پھول کھلیں برف میں۔
اک صدا گونجی جہاں میں، بندۂ حق بن ذرا،
پھر کہے گا وقت خود — “تو روشنی ہے عہد میں!”
ندیم کہتا ہے، یہ رازِ جاوداں ہے دوست!
“خود کو پاتا ہے وہی، جو کھو گیا وجود میں!”

0
5