مُحبت دیں کسی کو تو مُحبت خود بھی پائیں ہم
مُحبت کوئی لوٹائے تبھی خود کو لُٹائیں ہم
عیاں ہوں جتنے ہیں پِنہاں تِری ترکیب کے پہلو
تمنّا ہے کہ روٹھو ہم سے پھر تم کو منائیں ہم
ہزاروں ہیں امنگیں جن کی یکجائی فٙقٙط تم ہو
مگر آدیش ہے تقدیر کا تجھ کو گنوائیں ہم
خُدا ہے اُس طرف بندی ہے اُس کی اِس طرف واعظ!
بڑی مشکِل ہے کیسے شرک سے دامٙن بچائیں ہم
نہ ڈر دوزخ کا ہے ہم کو نہ ہی لالچ ہے جنّت کا
ضروری ہے خدا سے بس مُحبت ہی سکھائیں ہم
خیال آتا ہے بعد از شام، ممتا کا تقاضا ہے
جو مائیں منتظِر ہوتی ہیں تو گھر جلدی جائیں ہم
مُحال اب اُس کا ملنا ہے تو اُس کے شہر کو اعجاز
اِرادہ کر لیا ہے بِن بتائے چھوڑ جائیں ہم

0
35