سراب لکھا ہے یا وہ شراب لکھا ہے |
ترے سوال کا ہم نے جواب لکھا ہے |
لکھے ہیں اوروں پہ تنقید و تبصرے لیکن |
ہمیشہ آپ کو ہم نے گلاب لکھا ہے |
اسی کا حسن چھلکتا ہے صفحے صفحے پر |
اسی کے نام کا ہر ایک باب لکھا ہے |
مرے بدن کو نمی کھا گئی ہے اشکوں کی |
کہ جیسے دریا نے ساحل پہ آب لکھا ہے |
بھٹک رہے ہیں مسافر وصال کے اب تک |
کتابِ زیست میں ہجرت کا باب لکھا ہے |
اگر ہوا ہے تمہیں عشق تم یہ جان رکھو |
کتابِ عشق میں اک غم کا باب لکھا ہے |
میں اس لیے بھی خوشی کو تلاش کرتا نہیں |
مرے نصیب میں غم کا نصاب لکھا ہے |
میں جن کے واسطے دنیا ہی چھوڑ آیا ہوں |
انہوں نے مجھ کو ہی احسنؔ عذاب لکھا ہے |
معلومات