یار کا ہے ملال، روٹھ گیا
رنج ہے کچھ محال، روٹھ گیا
قرض جب سے ہوا نہ نیند رہی
پیسے کا ہے سوال، روٹھ گیا
ہجر کا جب فسانہ چھڑنے لگا
دیکھو اس کا کمال روٹھ گیا
ساتھ رہتے عروج میں سبھی جو
چھائے تم پر زوال، روٹھ گیا
ہمسفر سے نبھاہ کر سکیں ہم
گر رکھیں نا خیال، روٹھ گیا
فاصلے حد سے بھی زیادہ نہ ہوں
کر نہ وعدہ وصال روٹھ گیا
نقدی ناصؔر ہو پاس سہل ہے سب
جب نہیں رہتا مال روٹھ گیا

0
72