بے حد ہماری ذات میں پیوست غم ہوئے
مضبوط جتنے ہم ہوۓ اتنے ہی نم ہوئے
خوشیوں کی انجمن میں بھی رکھے قدم مگر
یہ غم ہماری ذات سے پھر بھی نہ کم ہوئے
لاکھوں تھی  چاہتیں یہاں اسواقِ دہر میں
تیری ہی چاہتوں میں گرفتار ہم ہوئے
جس کے بھی پاس تاب و تحمل نہ تھا یہاں
وہ لوگ عشق کر کے سراپا الم ہوئے
ہے عشق میں اذیّتِ زَرق و مُفارَقَت
اس کے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
حاکم کے بر خلاف جو تحریر کی رقم
بس یہ سبب تھا ہاتھ جو میرے قلم ہوئے
تَرکِ نَبَردِ عشق سے حاقِد ظَفَر ہوا
نفرت کے ہی فضا میں پھر اونچے عَلَم ہوئے
حسانؔ کیسے سامنا اغیار کا کرے
اپنوں کی بے رخی سے ہی جب چشم نم ہوۓ

0
10