ہجر کے وقت ملاقات پہ رونا آیا
آخری پیارے خطابات پہ رونا آیا
روز ماتم کدہ ہوتا ہے پریشانی سے
ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
بھائی بھائی میں چلے جھگڑے برے تھے سارے
رونما ہوئے خرافات پہ رونا آیا
رہتی مجبوریاں حائل کبھی انجانی سی
بے طلب ساری وجوہات پہ رونا آیا
لا اُبالی پَنہ اعمال کو کھا جاتا ہے
کھوکھلی اپنی عبادات پہ رونا آیا
آپسی رنجشیں باعث ہیں سبھی فتنوں کا
بڑھتی ناچاقی، تضادات پہ رونا آیا
صدیوں ناصؔر جو حکومت تھی جہاں پر چھائی
کھوئی شوکت جو، اِسی بات پہ رونا آیا

0
84