ہے خواب سینہ میں دیرینہ اک سجایا ہوا
دل و دماغ پہ ہر لمحہ جیسے چھایا ہوا
خمار سے ہو عیاں راز ان کی مدہُوشی کا
نہ جانے کون سا نشہ ہے ان پہ چھایا ہوا
گداگری نے ستم دیکھو کیسے ڈھائے ہیں
عزیز تھا جو کبھی آج وہ پرایا ہوا
بے سُود ہوتی شَب و روز کی کڑی محنت
جو اُجڑے گر کسی کا آشیاں بسایا ہوا
بُھلا نہ پائیں گے کچھ کھونے کے وہ غم ناصؔر
بڑی مرادوں سے رہتا جنہيں بھی پایا ہوا

0
81