راستہ دیکھتا رہا کوئی
کم نہ کر پایا. فاصلہ کوئی
عشق کرتا ہے منتخب عاشق
حسن کرتا ہے پھر خدا کوئی
گرتے گرتے سنھبل رہے ہیں ہم
آ رہی ہے ابھی دعا کوئی
اک شگفتہ مزاج ہے مجھ میں
مار سکتا ہے اس کو کیا کوئی
وہ حسیں ہے بہت حسیں لیکن
مرے جیسا بھی ہے بھلا کوئی
حسن عورت پہ ہیں کتابیں کئی
مرد پر کچھ نہیں لکھا کوئی
آنکھیں کہتی ہیں یہ یتیمی کی
سر پہ ہاتھوں کو پھیرتا کوئی
جانے والا چلا گیا ہنس کر
بنا روئے نہ رہ سکا کوئی
خوش ہیں ہم دونوں ایک دوجے سے
ہم کو کیوں کر کرے جدا کوئی
مجھ کو خالد سنوارنے کے لیے
کر رہا ہے خدا خدا کوئی

0
34