جلتا ہے صبح و شام دیا اس دلان میں
آخر مقیم کون ہے دل کے مکان میں
سردار ہوں کبھی تو سرِ دار ہوں کبھی
کتنے ہی پیچ و خَم ہیں مری داستان میں
بزدل دلوں کی فوج مقابل کھڑی ہے اور
نکلا ہوں صرف حوصلہ لے کر کمان میں
ہر قہقہے میں دردِ جگر کی ہے داستاں
اشکوں کا ایک دریا چھپا ہے چٹان میں
مشکل پڑی تو ساتھ کوئی ہم نوا نہیں
کل تک تو ہمسفر تھے بڑے کاروان میں
کہنے کو میرے سامنے بیٹھا ہے میرا یار
صدیوں کا فاصلہ ہے مگر درمیان میں
اک جستجو میں ہم نے گزاری تمام عمر
منزل ملی تو ٹوٹ کے بکھرے تکان میں
تھک کر جو آج ریل کی پٹڑی پہ جا گرا
کتنا ضعیف دل تھا کسی نوجوان میں
اہلِ نظر کی آنکھ پہ پردہ ہے خوف کا
چھالے پڑے ہیں اہلِ زباں کی زبان میں
میرے جواب اتنے غلط بھی نہیں مگر
پرچہ غلط ملا ہے مجھے امتحان میں
میں شب جلا رہا تھا اسامہ تمھارے خط
دل بھی ملا ہے صبح مجھے راکھ دان میں

0
21