خط کو تکیے میں رکھا اور منہ چھپا کر سو گئے
اپنی یادیں اپنے سینے سے لگا کر سو گئے
حرف تھے بیدار لیکن فکر تھی سوئی ہوئی
جانے کیا احساس جاگا مسکرا کر سو گئے
حرکتیں مچلیں تو کاغذ کے کنارے رک گئیں
لفظ بھی نوکِ قلم تک آئے آکر سوگئے
کامیابی چند قدموں دور ہنستی رہ گئی
ہم فصیلِ شہر کے نزدیک آکر سو گئے
دن بڑی مشکل سے کاٹا تھا مگر شب کیلئے
اپنے دل میں کتنے خوابوں کو جگا کر سو گئے
اجنبی کی بات بھی سب کو لگے گی اجنبی
اس لئے دل کی لگی دل سے لگا کر سو گئے
چھاؤں سے اٹھے تو ہم کو دھوپ بھی چھاؤں لگی
جانے احساسات کس دنیا میں جا کر سو گئے
کتنی تصویریں جھکی پلکوں کی زینت بن گئیں
جاگتی یادیں سرِ مژگاں سجاکر سو گئے
ادھ کھلی آنکھیں کسی کی راہ تکتی رہ گئیں
نیند کے جھونکے ہمیں شب بھر جگا کر سو گئے
جاگنے والے کہاں تک جاگتے رہتے حبیب
نیند کی وادی میں جب آئے تو آکر سو گئے

0
67