حساب سارا ہی اب تک جو منہ زبانی ہے
ہر ایک چیز مری ذات میں پرانی ہے
وفا کرے بے وفائی نصیب بن جائے
عجب سی چلتی یہاں کوئی جو کہانی ہے
رفیق ملنے سے موسم بہار جیسا ہے
ہنسی مذاق کی محفل بھی پھر سہانی ہے
پھوار تیز ہی بارش کی جب برستی ہو
ندی و نالوں میں آنے لگی روانی ہے
گرج و چمک بڑی ہی زوردار سی ہو تو
نتیجہ میں ملے آفت بھی ناگہانی ہے
اگر سمجھ میں نہ آئے قصور کیا ناصؔر
ہو فہم سے ہی جو بالا تو لا معانی ہے

0
61