اُسی کو دین خدا کا سمجھ نہیں آتا
جسے غدیر کا مولاؑ سمجھ نہیں آتا
جو بھاگے احمدِؐ مرسل کو چھوڑ کر ہر بار
تیرا بھگوڑوں سے رشتہ سمجھ نہیں آتا
ہیں کل کے کل بھی ایماں علیؑ ولی آخر
تمھیں یہ قول نبی کا سمجھ نہیں آتا
کسی کو چھت تو کہیں لکھا تم نے ہے کھڑکی
حدیث کو یوں بدلنا سمجھ نہیں آتا
گئے ہیں جنگوں میں آئے ہیں لوٹ کر خالی
اے شیخ تیرا خلیفہ سمجھ نہیں آتا
لگاتے فتوے ہو کرتے ادا بھی بدعت ہو
بیان مُلّا یہ تیرا سمجھ نہیں آتا
شراب پی کے پڑھاتے ہیں شیخ جی یہ نماز
نمازیں ایسے پڑھانا سمجھ نہیں آتا
پتہ ہے کس لئے ذکرِ خلیفہ کرتے نہیں
غلیظ لوگ ہیں؛ شجرہ سمجھ نہیں آتا
شرابی ہے وہ حرامی ہے دیکھو ابنِ زیاد
کثیر باپوں کا بیٹا سمجھ نہیں آتا
پلِ صراط پہ موجود ہیں علیؑ صائب
یہ مُلا تیرا ڈرانا سمجھ نہیں آتا۔

0
7