وہ عہدِ جوانی تھا جب خواب سجاتے تھے
ہر روز تمنا کے ہم دیپ جلاتے تھے
روتا ہے بہت یہ دل جب یاد وہ آتے ہیں
ماضی کے حسیں منظر جو دل کو لبھاتے تھے
احباب کی محفل تھی مصروف نہیں ہم تھے
کچھ وہ بھی کہا کرتے کچھ ہم بھی سناتے تھے
یہ رسمِ محبت یوں ہم نے تو نبھایء تھی
ہم پیار ہی کرتے تھے وہ زخم بنا تے تھے
رنگین یہ دنیا تھی اس دور میں اپنی بھی
وہ ہم کو بلاتے تھے ہم ان کو بلاتے تھے
حالات کی الجھن میں نکلی ہے عمر اپنی
یہ بارِ تباہی ہم ہر روز اٹھا تے تھے
زنجیریں وہ رشتوں کی کم زور نہ ہوتی تھیں
رشتوں کی یہاں خاطر سب جان لٹا تے تھے
ان آم کے باغوں میں دل جھوم ہی جاتا تھا
شاخوں پہ پرندے جب وہ گیت سنا تے تھے
یہ شہر میں رہنا بھی اک قیدِ مشقت ہے
جنگل کی ہوا تھی وہ بارش میں نہا تے تھے
نادار بہت تھے ہم حالات نے گھیرا تھا
ہم جشنِ بہاراں بھی اشکوں سے مناتے تھے
بس ایک نظر کو ہم ترسے تھے یہاں جن کی
شرما کے ہمی سے وہ آنکھوں کو چراتے تھے
جو آج نہیں چلتے اس عمر درازی سے
کل تک تو سفینہ وہ طوفاں میں چلاتے تھے
جب چاندنی چھوتی تھی راتوں کو بدن انکا
ہم پھول محبت کے زلفوں میں لگاتے تھے
کچھ خوابِ جوانی تھے تکمیل نہیں جن کی
ہر وقت مرے دل کو بے تاب بناتے تھے
انساں نہ رہے اب وہ یہ نسل نیء ہے آیء
الفت ہے کہاں ان میں وہ پیار لٹا تے تھے
کچھ بھی تو نہیں دیں گے تم کو یہ جہاں والے
مطلب کے پجاری تھے جو پیار جتا تے تھے
اسلام کے دل کی اب سنتا ہی نہیں کویء
بے درد زما نے سے امید لگا تے تھے

0
42