قَضا سمجھے تھے جس پل کو، وہ ساعت یاد آتی ہے
تری خاموش نظروں کی حرارت یاد آتی ہے
لٹا دی عمر تیری چاہ میں، کچھ بھی نہیں مانا
مرے جاناں ، تری دلکش سی صورت یاد آتی ہے
خدا کو بھی بھُلا بیٹھے، ترے جلوے کے صدقے ہم
اب اس دل کو وہی تیری عبادت یاد آتی ہے
کبھی تنہائیوں میں جب وہ چہرہ جگمگاتا ہے
تو دل کی دھڑکنوں میں تیری چاہت یاد آتی ہے
جو لمحے ساتھ گزرے تھے، وہ لمحے بولتے ہیں اب
تمہاری گفتگو میں بھی تلاوت یاد آتی ہے
نظر سے دور ہو کر بھول جاتے، تجھ کو کیسے ہم
بدن پر اب بھی چھوٹی سی کرامت یاد آتی ہے
جو خوابوں میں بھی آ کر خامشی سے دیکھتا ہے تُو
اسی کی آج بھی مجھ کو عداوت یاد آتی ہے
ترا ہر زخم تھا دل پر، مگر ہم مسکراتے تھے
مگر اب اُس ہنسی پر بھی وہ حسرت یاد آتی ہے
خورشید حسرت

0
8