سامنے بطحہ کا ہی منظر ہے
کب سے دل ہو چلا یہ مضطر ہے
عزم گر پنپے گا زیارت کا
نیکی کا کھول دے گا دفتر ہے
سینہ میں ہو مدینہ کی چاہت
اپنے ایمان کا وہ جوہر ہے
گنبدِ خضریٰ کا بنوں شیدا
نیک ابھرا جو یہ تصور ہے
رہتی ہو دھن سوار آقاؐ کی
پیار کا ایک وہ بھی پیکر ہے
ایسے پہچان ہوگی عاشق کی
ہر گھڑی آپؐ کا جو خوگر ہے
عشق میں ڈوب جائے ناصؔر بھی
اے خدا پھر ترا تشکر ہے

0
47