دن مشقت بھرا دن کو مجھے کس بات کا دکھ
تم نے جھیلا ہے اکیلے میں کبھی رات کا دکھ
اس سے رشتہ مرا خاموش محبت ہی رہا
جو کبھی ہو نہ سکی اس سے ملاقات کا دکھ
ہاتھ میں میرے یہ کشکول دیا ہے کس نے
کوئی محسوس کرے گا میرے اِس ہاتھ کا دکھ
ریت جھلسی ہوئی ہر وقت برستی ہے یہاں
مرے گاؤں جو برستی تھی وہ برسات کا دکھ
ظلم اس کے سبھی ہنس ہنس کہ سہے ہیں شاہدؔ
اب نہ سہہ پاؤں گا اس کے میں مکافات کا دکھ

0
33