ہو وقت کڑا ڈھال بھی تلوار بھی ہم ہیں
ٹل جائے تو دہشت گر و غدار بھی ہم ہیں
جب دیس پکارے تو ہتھیلی پہ رکھیں سر
اور لائقِ تعزیر و سزاوار بھی ہم ہیں
موقع ہو تو چھوڑیں کوئی مردار نہ زندہ
کہنے کو بڑے صاحبِ کردار بھی ہم ہیں
ہے جس میں مہک آج بھی پرکھوں کے لہو کی
اس گھر کے شکستہ در و دیوار بھی ہم ہیں
یاروں کیلئے ریشم و کم خاب ہیں لیکن
دشمن کیلئے حیدرِ کرار بھی ہم ہیں
اے آسماں اب تیری ضرورت ہی رہی کیا
اپنے ہی اگر در پئے آزار بھی ہم ہیں
اب عشق مفادات کا تابع ہوا یعنی
اقرار بھی ہم ہیں کبھی انکار بھی ہم ہیں
ہے سلطنتِ کون و مکاں اپنی اسی کے
ہم تخت بھی ہم تاج بھی دربار بھی ہم ہیں
جرات ہے کسی میں کوئی پوچھے کہ وطن کا
آئین بھی قانون بھی سرکار بھی ہم ہیں
شرمائیں نہ گھبرائیں حبیب آئیں کہ ہم ہی
فرسودہ روایات بھی سنسار بھی ہم ہیں

0
78