فریادؔ کی غزل کی اچھی زمین ہے
شاگرد میرا مجھ سے خاصا ذہین ہے
شاید کہ وصل کی شب چُپ بہترین ہے
گھونگھٹ اٹھائیں کیا، وہ پردہ نشین ہے
ہم مے کشوں کا کامل مے پر یقین ہے
اسلام کیا ہے واعظ! کیا تیرا دین ہے
کیا دوستوں کا کہیے ہر ہر امین ہے
سانپوں کی بِل ہے، میری جو آستین ہے
ظالم کو دیکھیے تو جتنا حسین ہے
سو درجہ اس سے بڑھ کر وہ خشمگین ہے
کیا دلربا ہے دلبر، کیا نازنین ہے
حسن اس پری کا کہیے تو آفرین ہے
مُشکین زلفِ پیچاں کیا عنبرین ہے
جو بھی ہے دام اس کا صد آفرین ہے
عشقِ بتاں میں واعظ، کافر یقین ہے
باغی، خبیث، سرکش، کنجر، کمین ہے
کیا پوچھتے ہو تنہاؔ کیسا مہین ہے
اک خاکسار، عاجز، اک کمترین ہے

0
121