میں جو چپ ہوں مرے دل کو نہ تم سمجھو ہوا کیا ہے
تمھیں دیکھوں تو جو مانگوں نہ تم سمجھو دعا کیا ہے
مرے ہمدم مرے دلدار مجھ سے یوں نہ روٹھا کر
محبت سے نہ تم واقف نہ تم سمجھو سزا کیا ہے
کسی کی یاد دل کی بات ٹوٹے دل کی ہی فریاد
ابھی کم سن نہ تم جانو نہ تم سمجھو صدا کیا ہے
کوئی خواہش جو ٹوٹی ہو کبھی جو دل گنوایا ہو
نہ ہو ایسا کبھی تم پر نہ تم سمجھو خدا کیا ہے
مرا کیا حال بتلاؤں ترے بن میں تو وہ گل ہوں
جڑا ہو شاخ سے لیکن نہ تم سمجھو جدا کیا ہے
مجھے حاصل ہے ہر راحت مگر بس تم نہیں حاصل
یہ سب کچھ بھی جو تم لے لو نہ تم سمجھو لٹا کیا ہے
کہیں اب کیا کسی سے سعد ہم تو یاں مسافر ہیں
یہاں ہر اک ہی حاجت مند نہ تم سمجھو گدا کیا ہے

58