تو نے خود بھیجا جسے کیا اس کا دم بھرتا نہیں
ماننے والوں پہ بھی کیا رحم تُو کرتا نہیں ؟
تجھ پہ جب ایمان لایا ہے ، خدا اس کا ہے تُو
تو نے دیکھا بھی ہے کیا تیرے لئے مرتا نہیں
اس سے پہلے ذکر آیا تھا جو اک موعود کا
مان لینے سے اسے مومن کوئی ڈرتا نہیں
ہے یقیں جس کو وہ پوچھا جائے گا کیا کیا کِیا
حد سے باہر پھر قدم کوئی بھی وہ دھرتا نہیں
کب اسے سچ بات کہنے سے ڈرائے تیغ بھی
سامنے سلطانِ جابر ، کے بھی وہ ڈرتا نہیں
حکمتوں سے کام لینا ہے مسلماں کا شعار
ہاتھ معصوموں کے خوں سے وہ کبھی بھرتا نہیں
دوستوں کی مد میں اس کا میں کروں اب تک شمار
دشمنوں جیسا سلوک اس نے کبھی برتا نہیں
ہار بھی جائے جو طارق ، جیت ہے اُس کا نصیب
عاشقی کے کھیل میں ، عاشق کبھی ہرتا نہیں

0
13