| تم بھی خوش رہ نہ سکو گے کبھی دھوکا کر کے |
| خود بھی ہو جاؤگے رسوا ہمیں رسوا کر کے |
| اتنی رسوائی اٹھائیں گے تری محفل میں |
| ہم کو معلوم نہ تھا عرضِ تمنا کر کے |
| بات کہنی ہے مگر آپ سے کیسے کہہ دوں |
| کتنی مشکل سے کہا اس نے مجھے آکر کے |
| ہائے پر کاریاں اسکی یہ کہا ہے ہم سے |
| دیکھیں محفل میں کبھی میرے قریب آ کر کے |
| مجھ کو جھکنا ہے تو میں اپنے ہی آگے جھک جاؤں |
| کیوں گنہ گار بنوں غیر کو سجدہ کر کے |
| اے مرے پردہ نشیں جب یہ اٹھے گا پردہ |
| ہم زمانے سے چلے جائیں گے پردہ کر کے |
| خامشی سے چلے جانا تھا، ضروری کیا تھا |
| جاتے جاتے ہوئے اک حشر سا بر پا کر کے |
| رب تو پوچھے گا زمانہ بھی تو طعنے دے گا |
| کیا ملا تجھ کو بھلا غیر کی پو جا کر کے |
| اپنے کردار سے، اخلاص سے، خوش خلقی سے |
| پتھروں کو بھی دکھا ڈالا ہے پگھلا کر کے |
| تشنگی سارے زمانے سے مٹا دینگے حبیب |
| دل سمندر کا بنا ڈالیں گے دریا کر کے |
معلومات