رضا قاتل نگہ قاتل جفا قاتل وفا قاتل
وہ قاتل اس کے لب قاتل ،ہے اس کی ہر ادا قاتل
ملا کے آنکھ ،آنکھوں سے چھری پھیری جو گردن پر
کیا یوں ذبح بھی اور ، دے گیا بھی خوں بہا قاتل
پڑیں دو چار چھینٹیں ذبح کرتے وقت اس پر تو
گلا بھی ساتھ کاٹا ___اور گیا دے بھی گلہ قاتل
کہاں تک سہہ سکے کوئی بل آخر چیخ نکلے گی
تو میرے صبر کو یوں ، کیوں رہا ہے آزما قاتل
جو کرنے تو لگا مجھ پر یوں نظرِ کرم ایسے ہے
رضا تیری ہے کیا ،اپنا بیاں کر مدعا قاتل
مجھی سے پوچھتا ہے ذبح کرنے کا طریقہ وہ
مجھے کیسے رہا ہے وہ ذرا دیکھو ستا قاتل
ہو جینا کیسے ممکن پھر کسی بندے کا اے لوگو
کہ جس بدبخت نگری کا وہاں پر خود خدا قاتل
تمنا آخری میری بھلا کر دے تو بس اتنا
چھری کو پھیرتے ہوئے ،نظر تھوڑی ملا قاتل
کیا جو قتل میرا، دفن بھی تو ساتھ کرتا جا
مری کچھ لاج رکھ لے ،لاش سے تو کر وفا قاتل
ہزاروں قتل کر کے بھی وہ تو معصوم ہے لیکن
میں نے جو اک محبت کی تو فتویٰ لگ گیا قاتل
مزہ آ جائے گا محشر میں جب سب دیکھتے ہوں گے
نظر پڑتے ہی جو تجھ پر،یوں میں نے کہہ دیا قاتل

229