غمِ عشق ہی مرا دکھ نہیں کہ اسی پہ عمر گزار دوں
مجھے اور بھی کیٔ کام ہیں سب اسی بلا پہ ہی وار دُوں
یہ اجاڑ چہرے یہ وحشتیں چھپی حسرتیں دبی خواہشیں
کبھی کاش ان میں سے اے خدا کوئی اک ہی چہرہ سنوار دوں
یہی نفرتوں کا کمال ہے کہ محبّتوں پہ زوال ہے
مرے چارہ گر کو جنون ہے جو قبا بچی ہے اتار دوں
کئی دُور سے مجھے دیکھ کر مری عادتوں پہ گماں کریں
مرا جی ہے ایسے مریض کو غمِ دو جہاں پہ ہی وار دوں
کبھی میری آنکھ سے دیکھ لو تو پتہ چلے گا کہاں ہیں ہم
کبھی خُلد میں تھے رواں دواں ابھی یہ جہاں بھی اسار دوں

0
48