غمِ عشق ہی مرا دکھ نہیں کہ اسی پہ عمر گزار دوں |
مجھے اور بھی کیٔ کام ہیں سب اسی بلا پہ ہی وار دُوں |
یہ اجاڑ چہرے یہ وحشتیں چھپی حسرتیں دبی خواہشیں |
کبھی کاش ان میں سے اے خدا کوئی اک ہی چہرہ سنوار دوں |
یہی نفرتوں کا کمال ہے کہ محبّتوں پہ زوال ہے |
مرے چارہ گر کو جنون ہے جو قبا بچی ہے اتار دوں |
کئی دُور سے مجھے دیکھ کر مری عادتوں پہ گماں کریں |
مرا جی ہے ایسے مریض کو غمِ دو جہاں پہ ہی وار دوں |
کبھی میری آنکھ سے دیکھ لو تو پتہ چلے گا کہاں ہیں ہم |
کبھی خُلد میں تھے رواں دواں ابھی یہ جہاں بھی اسار دوں |
معلومات