تیری مہندی نکھار لاتی ہے
روز دو چار مار لاتی ہے
اتنا نزدیک بھی نہ آیا کر
تیری قربت بخار لاتی ہے
اور الزام ہے شراب کے سر
ِچشمِ ساقی خمار لاتی ہے
اک ملاقات اس ستمگر کی
اک نیا انتظار لاتی ہے
پھول کھلتے ہیں، باغ سجتے ہیں
ُاس کی آمد بہار اتی ہے
کوچۂ یار خوشگوار سہی
واپسی سوگوار لاتی ہے
ُاس کی محفل سے میری تنہائی
مجھے واپس پکار لاتی ہے
بد نصیبی جہان میں تنہاؔ!
میرے جیسے ہزار لاتی ہے

0
217