لب پہ حرفِ زناں نہیں رکھتا |
میں زنخداں میں جاں نہیں رکھتا |
۔ |
خود کو میں بدگماں نہیں رکھتا |
سوچ ایسی میاں! نہیں رکھتا |
۔ |
کسی کی ہاں میں ہاں ملائے جو |
منہ میں ایسی زباں نہیں رکھتا |
۔ |
میں بھی قادر ہوں چھوڑنے پہ تجھے |
پاؤں میں بیڑیاں نہیں رکھتا |
۔ |
میں نبھاتا ہوں دل سے، رشتوں میں |
فکرِ سود و زیاں نہیں رکھتا |
۔ |
ہے مدثر عجیب اتنا کہ وہ |
اک ہی دل کو مکاں نہیں رکھتا |
معلومات