پوچھا محبتوں کے زمانے کدھر گئے
بولی وہ موسموں کی روانی میں گِھر گئے
پوچھا وابستگی سے تھے کچھ لوگ کیا ہوا
بولی گھٹائیں چھا گئیں سب اپنے گھر گئے
پوچھا کہ میرے بعد کوئی مجھ سا بھی ملا
بولی نہیں ملا ہمیں ہم ہر نگر گئے
پوچھا تمہاری آنکھوں میں آنسو یہ کس لیے
بولی عزیز لوگ جو دل سے اتر گئے
پوچھا کہ ہم سے شیدا دیوا نوں کا کیا بنا
بولی وہ زندگی کی روانی سے ڈر گئے
پوچھا کہ اُس کے پیماں محبت کا کیا ہوا
بولی ندا نیوں کے زمانے گزر گئے
پوچھا کہ تجھ کو مجھ سے محبت تھی کیا کبھی
بولی وہ چھوڑ خیر مگر ہم بکھر گئے
پوچھا کہ عاشقی کے تقاضوں کا کیا بنا
بولی وہ پیش پیش رہے اور زبر گئے
پوچھا کہ دل لگی نے تمہیں کیا ثمر دیا
بولی یقین اٹھ گیا سارے ثمر گئے
پوچھا کہ تُو تَو کہتی تھی کیسے جیوں گی میں
بولی وہ ماں کی آنکھ کے اشکوں سے ڈر گئے
پوچھا کہ تونے مجھ کو کہا زندگی تھا ، پھر
بولی غموں کے دل میں سمندر اتر گئے
پوچھا کہ وہ جو پیار کی اک شمع تھی جلی
بولی وہ بجھ کے راکھ ہوئی ہم بکھر گئے
پوچھا ہماری یاد ستاتی ہے اب بھی کیا
بولی نہیں ہاں یار مگر تم گزر گئے
پوچھا ہماری ذات سے شکوہ کوئی ہے کیا
سن کر تمہاری بات یہ آنسو اتر گئے
بولی تمہاری ذات سے شکوے ہزار تھے
پوچھا کہ پھر وہ سارے کے سارے کدھر گئے
بولی کہیں نہ آنکھ سے آنسو جھلک پڑیں
اس ڈر سے ہم وہ تم کو بتانے سے ڈر گئے
بولی تمہیں خبر ہے یا تم بے خبر رہے
ہم زندگی کے ہاتھ لگے اور بکھر گئے
محمد ندیم

0
122