شمع یہ کہہ کے بجھا دیتے ہیں دیوانے بھی
یہ اگر جلتی ہے جل جاتے ہیں پروانے بھی
حسنِ سیرت سے نہیں اب ہے غرض صورت سے
وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں پیمانے بھی
ہم نے دیکھے ہیں بہت مسجدیں مندر ویراں
کیا کبھی خالی نظر آتے ہیں مے خانے بھی
خواب دیکھا ہے کہ تبدیلی نظر آتی ہے
ہم کو اپنوں کی طرح ملتے ہیں بیگانے بھی
بے سبب ہم پہ ٹھہرنے کا ہے الزام یہاں
ہم تو جانے کو ہیں تیّار کوئی مانے بھی
تمُ چلے جاؤ گے طارق تو بھلا کیا ہو گا
لوگ پہلے کی طرح آنے بھی ہیں جانے بھی

0
15