میری زندگی میں جو داغ تھا اسے میں کبھی نہ مٹا سکا
نہ ملی مجھے کبھی چاہتیں نہ کسی کو اپنا بنا سکا
یہ میری ساری سفاہتیں ہیں ازل سے میرے ہی بخت میں
تھا جو پاس وہ بھی گنوادیا نہ اور کچھ ہی میں پا سکا
کرم کہو یا ستم کہو مرا حال سب سے جدا رہا
کوئی یاد مجھ کو نہ رکھ سکا نہ ہی میں کسی کو بھلا سکا
اک بار نظر سے جو گر گیا وہی اعتماد نہ رہا کبھی
نہ سمٹ سکی یہ مسافتیں نہ ہی پاس چل کے وہ آ سکا
لوگ بڑے ہی عجیب ہیں کسی بزم میں کسی رزم میں
اک شہر کے ہی ہیں سبھی کوئی دکھ نہ کسی کا بھلا سکا
زندگی میں وہ مست تھے نہ کچھ ان کو میری خبر ہوئی
نہ ملی انہیں کبھی فرصتیں نہ کسی کو کچھ میں بتا سکا
مرا ہمسفر تھا جو ایک شخص وہ بھی رہزنی میں شمار تھا
بڑا غُنج تھا مجھے جس پہ بھی وہ ہی دوستی نہ نبھا سکا

0
44